سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں تو اس کے شہر میںکچھ دن ٹھہر کے دیکھتےہیں سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں سنا ہے بولےتو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتےہیں سنا ہے حشر ہیںاس کی غزال سی آنکھیں سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیںکاکلیں اس کی سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں سنا ہےجب سے ہمائل ہے اس کی گردن میں مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں سو ہم بہار پہ الزام دھر کےدیکھتے ہیں سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی جو سادہ...
A Global Information Portal :: Delivering Solutions Globaly